
پاکستان کا جغرافیائی محلِ وقوع، شدید مون سون بارشیں، اور گلیشیئرز کا پگھلاؤ اسے بار بار آنے والے سیلابوں کے خطرے سے دوچار رکھتے ہیں۔ تاہم، 2025 کے سیلاب حالیہ برسوں کے سب سے تباہ کن قدرتی آفات میں سے ایک ثابت ہوئے، جنہوں نے ملک بھر میں شدید تباہی مچائی۔ ان سیلابوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ زراعت ہے — جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ یہ مضمون ان سیلابوں سے زراعت کو پہنچنے والے نقصانات اور غذائی تحفظ کے بڑھتے ہوئے خطرات کا جائزہ لیتا ہے۔
Table of Contents
Toggleپاکستان میں زراعت کی اہمیت
زراعت لاکھوں پاکستانیوں کی روزی کا ذریعہ ہے، جو تقریباً 37 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتی ہے اور قومی جی ڈی پی میں تقریباً 19 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ دریائے سندھ کا آبپاشی نظام — جو دنیا کے سب سے بڑے نظاموں میں سے ایک ہے — پنجاب اور سندھ کے زرخیز میدانوں کو سیراب کرتا ہے، جنہیں پاکستان کی زرعی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
گندم، چاول، گنا، اور کپاس جیسی اہم فصلیں، ساتھ ہی مویشی پالنے کا شعبہ، ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی قدرتی آفت جو فصلوں یا کھیتوں کو متاثر کرے، براہِ راست خوراک کی فراہمی اور لاکھوں افراد کے روزگار پر اثر ڈالتی ہے۔
2025 کے سیلاب سے زرعی نقصان کی وسعت
2025 کے سیلاب نے کئی صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ہزاروں ہیکٹر زرعی زمین زیرِ آب آ گئی۔ کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، آبپاشی کے نظام تباہ ہو گئے، اور تیار فصلیں بہہ گئیں۔
زراعت پر مرتب ہونے والے چند بڑے اثرات میں شامل ہیں:
- فصلوں کی تباہی:کپاس اور چاول کی فصلیں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں، خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں۔ اس کے نتیجے میں کسانوں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
- مویشیوں کی ہلاکتیں:ہزاروں گائے، بھینسیں اور مرغیاں سیلاب کی نذر ہو گئیں، جس سے دودھ اور گوشت کی فراہمی میں شدید کمی واقع ہوئی۔
- آبپاشی کے نظام کو نقصان:نہریں، بند (پشتے) اور نکاسی آب کے نظام بری طرح متاثر ہوئے، جس سے مستقبل میں کھیتی باڑی کی صلاحیت محدود ہو گئی ہے۔
- زمین کی زرخیزی میں کمی:سیلابی کیچڑ اور آلودہ پانی کی وجہ سے کئی علاقوں کی زمین فوری کاشت کے لیے ناقابل استعمال ہو گئی ہے۔
سیلاب کے بعد غذائی تحفظ کے خطرات
ان سیلابوں سے ہونے والا زرعی نقصان محض معاشی نہیں بلکہ ایک ممکنہ غذائی بحران کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے:
- کم فصلیں: زمین زیرِ آب آنے اور آبپاشی نظام تباہ ہونے کے باعث آنے والے سیزن میں فصلوں کی پیداوار میں کمی ہو گی۔
- خوراک کی مہنگائی: گندم اور چاول جیسی بنیادی اجناس کی قلت قیمتوں میں اضافہ کرے گی، جس سے غریب طبقہ شدید متاثر ہو گا۔
- غذائیت کی کمی: مویشیوں کے نقصان اور سبزیوں و پھلوں کی فراہمی متاثر ہونے سے غذائی قلت بڑھنے کا خدشہ ہے۔
- برآمدات میں کمی: چاول اور کپاس جیسی زرعی برآمدات میں کمی آئے گی، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر متاثر ہوں گے۔
- دیہی غربت میں اضافہ: پہلے سے محروم کسان اور دیہی برادریاں مزید مالی بحران کا شکار ہو جائیں گی۔
حکومت اور امدادی اداروں کا ردِعمل
حکومتی ادارے اور فلاحی تنظیمیں ہنگامی امداد فراہم کر رہی ہیں، جن میں شامل ہیں:
- بیج اور کھاد کی فراہمی: کسانوں کو دوبارہ کاشتکاری میں مدد دینے کے لیے
- مویشیوں کی بحالی کے پروگرام: جانوروں کا علاج اور متبادل مویشی فراہم کرنا
- آبپاشی نظام کی مرمت: بند، نہریں، اور پشتے دوبارہ تعمیر کیے جا رہے ہیں
- مالی امداد: متاثرہ کسانوں اور دیہی خاندانوں کے لیے معاوضے کے پیکیج
طویل المدتی حل: مستقبل میں زرعی نقصان سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
پاکستان کو اپنی زرعی حفاظت کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:
- سیلاب سے محفوظ انفراسٹرکچر: بند، پشتے اور جدید آبپاشی نظام کی تعمیر
- موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق فصلیں: ایسی اقسام تیار کرنا جو سیلاب یا خشک سالی برداشت کر سکیں
- ابتدائی وارننگ سسٹم: کسانوں کو بروقت آگاہ کرنے کے لیے جدید پیشگوئی نظام
- زمین کے بہتر استعمال کی منصوبہ بندی: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زرعی توسیع سے گریز
- کسانوں کی تربیت: قدرتی آفات سے نمٹنے اور پائیدار کاشتکاری کے لیے تعلیم و تربیت
نتیجہ
2025 کے سیلاب پاکستان کے زرعی شعبے اور پالیسی سازوں کے لیے ایک وارننگ ہے۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے، تو موسمیاتی تبدیلی، ناقص انفراسٹرکچر، اور سیلاب کا خطرہ ملکی غذائی تحفظ کو مسلسل خطرے میں ڈالے گا۔
تاہم، پائیدار کاشتکاری، جدید انفراسٹرکچر، اور موسمیاتی مطابقت پر مبنی حکمتِ عملی اپنائی جائے تو پاکستان اس بحران سے بحال ہو سکتا ہے اور زرعی مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔